عَدل وانصافْ
آپ کے عدل وانصاف کا اندازہ مؤلف ”لطائف اشرفی“ کے ان اشعار سے ہوتا ہے:
بہ دوران عدلش ہمہ روزگار
گلستان شدہ عدل او رودربار
زہے عدل وانصاف آن دادگر
کہ برمیش گرگ نہ بند وکمر
اگر فیل بر فرق مور ے گذر
کند مور بر فیل آرد نظر
کہ ایں دور سلطان اشرف بود
چناں ظلم تو بر سرِ من رود
ترجمہ: جب سمنان کی حکومت اس کے ہاتھ میں آئی تو دنیاعدل وانصاف سے بھر گئی، اس کے دور عدل میں ساری دنیا اس کے عدل کی نہر سے سیراب ہوکر گلستاں بن گئی، اس کے انصاف کا یہ عالم ہے کہ بھیڑیا بکری کی طرف آنکھ نہیں اٹھاتا ہے، اگر ہاتھی چیونٹی کے اوپر سے گذرے تو چیونٹی اس کو خبردار کرتی ہےکہ یہ سلطان سید اشرف کا دور ہے، تو کِس طرح یہ ظلم مجھ پر کرنے کی ہمت کرتا ہے۔
چنانچہ آپ کے عہد حکومت میں آپ کے عدل وانصاف سے متعلق بہت سے واقعات کتابوں میں ملتے ہیں، لیکن ان میں دو واقعات جو ”لطائف اشرفی“ میں علاؤالدولہ سمنانی سے منقول ہیں یہاں نقل کیے جاتے ہیں۔
آپ ایک مرتبہ شکار کے لیے کسی گاؤں میں گئے شکار کی تلاش میں آپ نے سپاہیوں کو ہر طرف روانہ کیا، اتنے میں ایک بڑھیافریادلے کر آئی کہ سپاہیوں نے اس کا دہی زبردستی چھین لیا ہے، جو سپاہی موجود تھے انھیں آپ نے حکم دیا کہ یہاں حاضر ہوکر صف بستہ کھڑے ہوجائیں اور بڑھیا سے فرمایا کہ مجرم کی شناخت کرو ، بڑھیا نے سپاہیوں کو دیکھا مگر مجرم ان میں نہیں تھا، اتفاقاً ایک سپاہی شکار لئے ہوئے آتا ہوادکھائی دیا ، بڑھیانے کہا اسی ظالم نے میرا دہی چھینا ہے، سپاہی سے دریافت کیا گیا تو اس نے صاف انکار کردیا، گواہ طلب کیے گئے، تو بڑھیا کوئی گواہی بھی نہیں پیش کرسکی، اس وقت آپ نے اپنی فراست سے کام لیا، اور حکم دیا کہ مجرم کو چند مکھّیاں کھلادی جائیں ، مکھیوں کے کھاتے ہی فوراً قے ہوگئی ، دہی اس وقت تک ہضم نہیں ہوا تھا، قے کے ذریعے پیٹ سے باہر نکل آیااور جرم ثابت ہوگیا، آپ نے سپاہی کا گھوڑا مع زین کے بڑھیا کو دلادیا، اور سپاہی کو سخت سزا دی۔
دوسرا واقعہ یہ ہے کہ آپ کے دربار میں ایک درویش شکایت لے کر آیا اور دادخواہ ہوا کہ میں ایک قافلے کے ساتھ آج رات کو سویا ہوا تھا، میری کمر میں چالیس اشرفیاں بندھی ہوئی تھیں، قافلے کے کسی شخص نے کھول لیا، اور قافلے کے سبھی افراد اس چوری سے انکار کرتے ہیں، آپ نے اس قافلے کو بلوایا، اور پوچھا ، ہر ایک نے انکار کیا، اور قسمیں کھانے کھانے لگا، آپ نے درویش سے فرمایا کہ قانونِ شریعت کے مطابق قسم کھانے کے بعد کوئی تدارک نہیں ہوسکتا، درویش رونے لگا، آپ نے فرمایا اچھا ٹھہر! ایک معقول حکمت میرے ذہن میں آئی ہے اس پر عمل کرتا ہوں، قافلے کے سب چھوٹے بڑے حاضر تھے، یکے بعد دیگرے آپ نے ہر ایک کے سینے پر ہاتھ رکھنا شروع کیا، دس آدمیوں کے سینے پر ہاتھ رکھا، اور کچھ پتہ نہیں چلا، بالآخر ایک شخص سامنے آیا آپ نے اس کے سینے پر ہاتھ رکھا اور متفکر ہوئے ، ہاتھ اٹھا لیا، اور دوبارہ پھر سینے پر ہاتھ رکھا اور حکم دیا کہ درویش کا مال اس سے وصول کیا جائے، ذرا سی سختی پر اس نے اقرارِ جرم کرلیا، اور اشرفیاں اس کے پاس برآمد ہوئیں، صرف ایک اشرفی کم تھی، جس کے بارے میں خوداس شخص نے بتایا کہ میں نے خرچ کرڈالی ہے۔
For Contact Us
Go to Contact Page
or
Mail:contact@makhdoomashraf.com
Cal:+91-9415721972